جنوبی پنجاب جہاں 80کی دہائی تک بھی ہمیں اخبار تین روز بعد ملتا تھا اور ہمارے حصہ میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن ”جو ہمیں وہی دیکھاتا تھا جو صاحب اقتدار لوگ دیکھنا چاہتے ہیں“تھا۔وقت نے کروٹ بدلی اور لیہ میں پہلا سب کیمپس ”بہادر سب کیمپس“کا آغاز ہواجس سے نہ صرف لیہ شہر کے بچے بلکہ پاکستان بھر کے طلباو طالبات زیور تعلیم سے مستفید ہوئے اور اب وہ مختلف مکتبہ ہائے فکر میں اپنا فریضہ بہ احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
رائے غلام عباس بھٹی چیئرمین العباس بھٹی ٹرسٹ کی سب وروز کی کاوش سے ضلع کے طلبا و طالبات کے لیے جی سی یونیورسٹی فیصل آؓباد لیہ کیمپس کا آغاز ہوا ۔ اس ا دارہ سے نامور طلبا و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نمایاں عہدوں پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ان دو کیمپسز کے آنے سے نہ صرف تعلیم کے شعبہ میں ترقی ہوئی بلکہ یہاں کی تہذیب میں بھی ایک طرح کا بدلاؤ آیا اور اسی بدلاؤ نے ہمیں سوچنے اور سمجھنے کے نئے زاویے دئیے۔ہمیں بتایا کہ ہم تعلیم کے ذریعے کس طرح انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔
گزشتہ کچھ روز سے جس طرح رائے غلام عباس بھٹی چیئرمین العباس بھٹی ٹرسٹ کے خلاف من گھڑت پراپیگنڈا شروع ہوا جس کا مقصد محض یہ تھا کہ ضلع لیہ میں موجود جی سی یونیورسٹی لیہ کیمپس میں اس بار ہونے والے طلبا کی تعداد میں اضافہ اور ضلع لیہ میں بڑھتی ہوئی شعوری سطح کے سامنے رکاوٹ پیدا کرنا تھامگر پراپیگنڈا کرنے والے یہ بھول گئے کی شعورو آگہی کبھی بھی کسی رکاوٹ کو برادشت نھیں کرتی بلکہ وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
پاکستان میں دم توڑتی تہذیبی روایات کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر پوری سوسائٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چراغ جو بڑھتی ہوئے تاریکی میں اپنے حصے کی روشنی پھیلا رہے ہیں بے حد قابل قدر ہیں۔ہمارا معاشرتی بگاڑ انتہاؤں کا چھو رہا ہے۔ہرروز ایک نئی خبر ہمارے یقین و اعتماد کو متزلزل کر رہی ہے۔ہر آنے والا دن کئی نئے اندوہناک واقعہ کی خبر لے کر آرہا ہے۔ہر فرد لمحہ بہ لمحہ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے اور مایوسیوں اور داسیوں اور تاریکیوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے۔ایسے عالم میں بقول احسان دانش
یہ غنیمت ہے سسکتے ہیں یہاں چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو
کیا ہم اپنے حصے کی شمع روشن نہ کریں۔ کیا ہم معاشرے کو امید کی کرنوں سے منور نہ کریں،کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم اقدار و روایات کو دم توڑنے سے بچائیں۔آج جہاں عوام کو ہر طرف سے،ہر ادارے کی طرف سے،امید افزا خبریں کم ہی ملتی ہیں وہاں ہم ایسے افراد اور اداروں کے خلاف بھی صف آرا ہو جائیں جو علم و یقین،اعلیٰ روایات،فکرودانش اور اعتدال پسندی کی شمع روشن کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ہم پھونکوں سے ان چراغوں کو بجھانے پر تل جائیں۔خدارا اپنے گریبانوں میں جھانکئے اور سوچئے کہ ہم کیا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔محبت کا یا نفرت کا،روشنی کا یا تاریکی کا؟ہم کس کے ساتھ ہیں؟اگر آج بڑھتی ہوئی تاریکی کے بالمقابل سسکتے چراغوں کا ساتھ نہ دیا گیا اور انھیں اپنی کم عقلی،کم فہمی اور بدنیتی سے بجھانے کی کوشش کی گئی تو یہ پورے معاشرے کا المیہ ہو گا۔یہ کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں۔میں اس ظلمت شب میں ایک چراغ روشن کررہا ہوں۔اس معاشرے کی عظیم روایات کی بحالی کے لیے میدان میں آیا ہوں۔
مسئلہ کسی فرد کا نہیں کسی ادارے کا نہیں۔مسئلہ اس معاشرے کے شاندار ماضی کا ہے۔ہمارا مطمع نظر وقتی مفاد نہیں اس سوسائٹی کا دائمی مفاد ہے وگرنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔