عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ایک بھی پہیے میں نقص پیدا ہو جائے تو گاڑی کا چلنا دشوار ہو جاتا ہے ۔کائنات کی تخلیق اسی جنس کے لیے کی گئی اور یہ اشرف المخلوق جب بھی قانون فطرت کی ڈگر سے ہٹی اس نے اپنے لیے تباہی کے در کھول لیے ۔معاشرہ مرد و زن کے رشتے سے تخلیق ہوتا ہے انہی کے ملاپ سے رشتے وجود میں آتے ۔
مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے .وہ صنف نازک کے لیے خدا کا متعین کردہ مضبوط حصار ہے اس حصار کے لیے نکاح جیسا خوبصورت اور مقدس رشتہ بنایا تاکہ ایک مصفا معاشرہ جنم لے سکے۔مگر موجودہ معاشرتی حالات میں یہ رشتہ بہت کمزور نہج پہ کھڑا دکھائی دیتا ہے اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اور پاکستان میں طلاق کی شرح میں لگاتار اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صرف وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں گزشتہ 16 ماہ کے دوران 1048 جوڑوں میں طلاقیں ہوئیں جن میں سے 414 خواتین نے خود خلع حاصل کیا۔
پاکستان میں سماجی رویوں میں ناہمواری اور کئی وجوہات کی بنا پر طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ریکارڈ کے مطابق، سال 2018 کے دوران صرف اسلام آباد کے شہری علاقوں میں 779 طلاقیں رجسٹر ہوئیں، جن میں سے 316 خلع کے کیسز تھے، جن میں خواتین نے عدالتوں سے ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے۔ لیکن، یہاں بھی میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہ ہو سکا۔ اور بالآخر طلاق ہوگئی۔
اُسی سال 427 مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔ 2019 کے پہلے 4 ماہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے 98 خواتین نے خلع لے لیا۔
آخر ایک بندھا بندھایا رشتہ کس طرح۔اختتام پذیر ہوتا ہے ؟اسکی مختلف وجوہات ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام لوگوں میں برداشت کی کمی اور اپنی خواہشات کو سب سے مقدم سمجھنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اولاد کا نہ ہونا۔ جہیز کا نہ ہونا۔شوہر کو غربت کے طعنے دینا۔بیوی کو بدصورتی کے طعنے دینا اور نامردی اہم وجوہات میں سے ہیں۔
پہلے سماج کی روایات کے مطابق عورتوں کو بات کرنے کی آزادی ہی نہی تھی۔ لیکن تعلیم اور سماجی شعور میں اضافے کی وجہ سے آجکل کی عورت باشعور ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں پر خاموش نہی رہ سکتی۔ دوسرا معاشی طور پر خود مختار عورتیں کیونکہ معاشی عدم تحفظ کا شکار نہی ہوتیں تو اس لئے بھی وہ اپنے ان چاہے یا ذبردستی کے زشتوں سے جان چھڑانے والے فیصلے آسانی سے کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہیں ۔یعنی جو قطر ائیرویز کا ٹکٹ خریدنے کی سکت رکھتی ہیں ،وہ سمجھوتہ ایکسپریس پر سوار کیوں ہونگی ؟ اگر ان پڑھ عورت ہمیں مظلوم دکھائی دیتی تو پڑھی لکھی عورت ہمیں مستحکم بھی نظر آتی ہے ۔گویا چپ رہنے والی کو بولنا آگیا۔تب مختلف تنظیموں نے جنم لیا اور حقوق نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔معاشرے میں پسی مظلوم عورت کو تحفظ دیا ۔آج بھی ان اداروں میں تیزاب سے جھلسی اور آگ سے جلے چہرے خود کر کپڑے سے ڈھانپے سوال کرتے ہیں کہ تم تو کہتے تھے وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ ۔تو ان رنگوں کو بد رنگی میں کیوں بدل دیا کہ کائنات کے رنگ پھیکے پڑ گئے ۔ عورت کسی طرح بھی مرد سے کم نہیں ہے سوائے جسمانی طاقت کے ۔ورنہ عقل وشعور وہ برابری کی سطح پر ہی رکھتی ہے ۔ہم جب بھی عورت کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں تو صرف معاشرے کی ستائی ہوئی عورت کے مسائل پر ہی بات کی جاتی ہے مگر اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے پڑھی لکھی عورت بھی مظلوم ہے ۔دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو بھی مرد کی چیرہ دستیاں برداشت کرنی پڑتیں بس فرق یہ کہ وہ ظلم ذرا تہذیب یافتہ قسم کے ہوتے ہیں ۔اور جسمانی کے علاوہ ذہنی اذیت کا باعث ہوتے ہیں ۔کیا عور ت وہاں محفوظ ہے ؟ اب پھر یہ تان یہیں آکر ٹوٹتی کہ عورت صرف گھر کی چار دیواری میں ہی محفوظ ہے باہر گویا مرد ایک بھیڑیے کی شکل میں پھر رہا ہے جو اس کے وجود پر دانت نکوس رہا ہے ۔اگر یہ درست ہے تو بخدا ہم کسی طرح بھی مہذب قوم کہلانے کے مستحق نہیں ۔۔