یہ عرض میں ان سے کرنے لگا ھوں جو سمجھنا چاہیں اور جو نہیں سمجھتے ان بارے تو اللہ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما یا کہ آپ پریشان نہ ھوں جن کو سمجھ نہیں آنی نہیں آنی۔ آئی ایم ایف ایک بنک ھے یہ۔سادہ سالفظ ھے جس کو سمجھ آ جائے۔ جب کسان کسی بنک کے پاس جاتا ھے قرض لینے تو اس کا رقبہ پلیج کیا جاتا ھے ، اسی طرح سے جب کو کاروباری قرض لینے جاتا ھے تو اس کو فیکٹری، دکان یا اس کا سٹاک، کوئی گھر اس کے بدلے بنک کے پاس رہہن رکھنا پڑتا ھے۔ بین الاقوامی طور پر اگر آپ سمجھنا چاہیں تو ہر ملک میں اور اب پاکستان میں جیسے کچھ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جیسے پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی لمیٹڈ (pacra) ھے۔
اسی طرح انگلینڈ میں تقریبا چار ایجنسیاں ہیں جن میں ایکوافیکس، ایکسپیرین،ٹرانس یونین ، اور کریڈیوا۔ ہر مالی ادارہ جیسے بنک، سرکاری ادارے،؛پرائیویٹ قسطوں پر سامان دینے والے سب کے سب ان ایجنسیوں کی مدد سے ہر امیدوار کا اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کتنا ایماندار ، یا غبن کرنےوالا ھے۔ ہر انسان جو اس ملک میں رہتا ھے اس کی معلومات جن میں وہ کہاں رہتا ھے، اس کے گھر میں کون رہتا ھے۔ وہ ووٹ دینے والے ادارے کے پاس رجسٹرڈ ھے یا نہیں، اس نے کتنے بنکوں سے یا دکانوں سے کیا کیا لیا ھوا ھے ۔ کون سی کمپنی سے فون لیا ھے۔ کون سا بل وقت پر دیا ھے یا نہیں۔ گھر کی مارگیج وقت پر ادا کی یا نہیں۔ کسی بنک کا پیسہ لوٹا ھوا ھے یا نہیں ۔ اور کس کس گھر میں کتنی دیر رہا ھے ۔ کون سی کورٹ نے کیا فیصلہ دیا ھوا ھے اس کے خلاف۔ یہ سب معلومات ان کے پاس ھوتی ہیں۔ تمام مالی ادارے ان کریڈٹ ایجنسیوں کی ممبر شپ لیتے ہیں ۔ اور جب کوئی ان کے پاس ادھار لینے پہنچتا ھے ، گھر لینے آتا ھے، بیڈ یا کپڑے لینا چاہتا ھے ۔ یعنی جس چیز میں ادھار کی شمولیت ھے اس کو جو بھی ادارے، دکان کا مینیجر ھے وہ آپ سے آپ کی معلومات لیتا ھے۔ اگر آپ غلط معلومات دیں اور آپ کا نام ان کریڈٹ ایجنسیوں کے ڈیٹا بیس پر نہیں آیا تو وہ بڑے آرام سےآپ کو انکار کردے گا ۔ اگر آپ نے اپنا یوم پیدائش ، ایڈریس دیا وہ آپ کی معلومات لیکر آپ سے دستخط لیکر آپ کی اجازت سے سرچ کرے گا اور اس کے سامنے آپ کی تمام معلومات اور آپ کی affordability اور creditability
واضع ھو کر آ جاتی ھے ۔ اگر آپ نے کوئی پیسہ نہیں کھایا وغیرہ وہ چند منٹ میں بغیر کسی ہاشمی، قریشی، گیلانی، کھچی، چوہدری زرداری کی سفارش کے بغیر ادھار دے دے گا۔ لیکن اگر اس کو کریڈٹ رپورٹ پر کوئی شک ھوا، آپ کے خلاف کسی کورٹ کا حکم ھوا وہ بڑے آرام سے کریڈٹ ایجنسی کا نام لے گا اور کہے گا آپ اس سے رابطہ کریں کہ اس نے یہ معلومات کیوں لکھی ھوئی ہیں ۔
امید ھے انفرادی طور پر اگر اتنا سخت نظام ھے تو ملکوں کی سطح پر تو اور بھی سخت انتظام ھوتے ہیں ۔
پچھلی حکومتوں نے اپنا سب کچھ داو پر لگایا کہ ائیرپورٹ، موٹر وے، ہسپتال، اور دوسری جائیدادیں جو پاکستان کی ہیں کو رہہن pledge رکھا اور قرضے لیتے رہے ۔ اور واپسی نہیں کیا ۔ قرض کا سود بہت ہی بھیانک طریقے سے بڑھتا ہے اور جو عالمی ادارے آپ کو قرض دے رہے ہیں وہ کوئی آپ کی ماسی کے بچے نہیں نہ ہی ہمدرد بھائی کی طرح ہیں کہ قرض حسنہ دے دیں۔ قرض ادا نہ ھونے پر سود کو بھی اصل رقم میں ڈال کر سود اور بڑھا یا جاتا ھے۔
ابھی جب آئی ایم ایف آیا ۔ اور سرکاری لوگوں نے ان سے ڈائیلاگ کیا تو دونوں طرف کوئی بچے نہیں تھے۔ انہوں نے شرائط اپنی دیکھنی ہیں۔ ان سے آپ کی کوئی بات نہیں چھپی ھوئی ۔ کریڈٹ ایجنسیاں ان کو انتباہ کرتی ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے قرضہ لیکر لندن میں فلیٹ لیا، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دبئی میں اسے قرضے سے ولا بنائے ھوئے ہیں اور وہاں پونی گھوڑے رکھے ھوئے ہیں جن ہر بلاول جیسے لیڈر سواری کرکے بڑے ھوئے ہیں ۔ ان کو یہ علم ھوتا ھے کہ اور آئی ایم ایف کے صلاح کار جو صلاح دینے کی تنخواہ لیتے ہیں ان کو مطلع کرتے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہسپتال بنانے پر کک بیک لی ھے ، موٹر وے بنانے پر ساتھ کی زمینیں لیکر چوری سے بیچی ہیں ۔ انہوں نے سکول بنانے پر رشوت لی ھے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ملکی۔سٹیل مل، اپنی قومی ائیرلائن کو اپنی ذاتی انڈسٹری اور ائیرلائن کی خاطر تباہی کے دھانےپر پر پہنچا دیا ھے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تعلیمی کامیابیوں پر بچوں کو انعام کے طور پر گھٹیا لیپ ٹاپ اور وہ بھی اپنے داماد سے دلوائے ہیں ۔ جب وہ یہ سب باتیں سنتے ہیں تو ان کو سوچ سمجھ کر اگلا لون دینا ھوتا ھے کیونکہ وہ اپنے ادارے کے وفادار ھوتے ہیں ۔