خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے نیلے ۔پیلے۔ سبز۔ گلابی۔ سفید خواب جو دل میں طمانیت اور روح میں تازگی بخش دیں۔پچیس جولائی کچھ نئے خواب بننے کا دن یا پھر بھرم ٹوٹنے کا دن آزمائش یا کسوٹی یا کون بنے گا وزیر اعظم کھیلنے کا دن ۔میدان سج گیا پنڈال میں شور ہے ۔کہیں تیر کہیں بلا اور کہیں شیر کی صدا سنائی دیتی ۔ہمیں ان تینوں سے غرض نہیں ہمیں تو خواب بچانا ہے ۔اقبال کا خواب قائد کا ثمر ۔سو اپنے لیے اپنی آئندہ نسل کے پاکستان کے لیے انتخاب کرنا ہے اس درد مند انسان کا جس کے ہاتھ میں بقول پاکستانی قوم جادو کی چھڑی ہے یا معجزہ جو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔امن کی ایک روشن صبح میری قوم کا مقدر ہوگی ۔ہم سائنس ٹیکنالوجی۔ میں ترقی کریں گے ۔ہم پہ لگا دہشت گردی کا ٹھپہ ہٹ جائیگا اور ہم دنیا کے لیے امن کے پیامبر بن جائیں گے رشوت ۔سفارش ۔اقربا پروری سے نجات ہوگی ۔قانون کی بالا دستی ۔ ظلم کا علاج ۔دہشت گردی کے ناسوروں سے نجات ہو گی ۔میرے تھر کے فاقہ ذدہ لوگوں کے چہرے تونگری سے کھل اٹھیں گے بھوک افلاس ختم ہو جائے گا ۔والدین غربت کے ڈر سے اپنے جگر گوشوں کا سودا نہ کریں گے اور نہ ان کے گلے گھونٹیں گے ۔مدارس اسکول کالج یونیورسٹیاں محفوظ ہوں گی ۔یہ سارے خواب جو ہر محب وطن پاکستانی کی مٹھی میں تتلی کے رنگوں کی طرح بند ہیں ۔اور دوسرے ہاتھ میں ووٹ ۔ایک امانت جس کا حق دار صرف وہ جو ہمارے ان خوابوں کو تعبیر دے نہ کہ ہماری آنکھوں کو ان کی کرچیاں چننے پہ مجبور کر دے ۔
میری قوم اب تھک چکی ہے اس کے کندھے اب اور لاقانونیت کے لاشے نہیں اٹھا سکتے ۔اسے بھی جینے کا حق ہے اب روٹی کپڑا مکان اس کی ترجیح نہیں بلکہ تعلیم ۔انصاف۔ توازن روزگار۔ صاف پانی اور امن و خوشحالی اس کی ترجیحات میں شامل ہے ۔وہ ذاتی نہیں بلکہ قومی سطح پہ ترقی اور تبدیلی چاہتی ہے ۔عام آدمی اب عام نہیں بلکہ خاص ہے کیونکہ اب وہ پاکستان ہے پاکستانی ہے ۔
میں بھی پاکستانی ہوں اس مادر وطن کی آغوش میں کھیلنے والی ایک انسان ۔میری وطن سے وابستگی ایسی ہی ہے جیسے مجھے اپنے۔گھر سے ہے ۔میں بھی اپنے گھر سے آلودگیوں کا صفایا چاہتی ہوں اور اسے سجانا سنوارنا چاہتی ہوں ۔ووٹ کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوں اور اس کا شعور بھی رکھتی ہوں ۔میں جب پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتی ہوں اور حال پہ نظر ڈالتی ہوں تو کچھ مایوس ہو جاتی ہوں ۔میں اور میرے اردگرد کے لوگ واقعی اب تبدیلی چاہتے ہیں مگر کاروان سیاست میں مجھے کوئی تعلیم یافتہ محب وطن چہرہ نظر نہیں آتا ۔وہی لوگ جو پہلے بھی ہم پہ حاکم تھے اب پھر نئی پارٹی کی نقاب چڑھائے نظر آتے ہیں ۔انہوں نے جو کرپشن تب کی اب بھی کریں گے ۔کیونکہ بچھو کی فطرت ڈنک مارنا ہے وہ اس کے بغیر کیسے رہ سکتا ۔یہاں میرا ووٹ میرے ہاتھ میں لرزنے لگتا اور مایوسی چھا جاتی تب ایک سوال اٹھتا کہ ایسا کیوں ہم پارٹی کو ووٹ دیں یا اس آزمائے ہوئے فرد کو ؟جب یہ سوال میں نے مرشد کی کورٹ میں ڈالا تو جواب ملا ۔کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا اور پارٹی ٹکٹ انہی نمائندوں کو دیے گیے جن کی جیت کے امکان ہیں بس ایک دفعہ حکومت آجائے تو سالار کی مرضی کے مطابق ہی لشکر کی حکمت عملی طے کی جاتی ۔لہذا جب پوچھ گچھ کا ڈر ہوگا تو سب ٹھیک ہو جائیگا ۔چلیں جی ہم دل کو ساڑھ کر سواہ کرتے ہوئے یہ بھی کر گذریں گے ۔مگر خاں صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اگر اب کی بار انہوں نے عوام کے ساتھ پچھلوں کی طرح کھلواڑ کیا تو عام بغاوت ہوگی اور۔بپھری عوام کیا کرے گی یہ بھی ایک سوال ہے۔۔گویا اب خوابوں سے سمجھوتا ناقابل قبول ہے ۔ ہمیں اپنے۔خواب بچانے ہیں اور صفحہ قرطاس پہ رنگ بھرنےہیں یہی بچاؤ کا راستہ ہے ۔اڑتے پرندوں کے۔لوٹنے اور نین بسیرا کرنے کا وقت ہے۔