ضلع لیہ صرف ضلع زرعی ضلع ہونے کی وجہ سے معاشی اعتبار سے انتہائی کمزور اور معاشی بدحالی کا شکار ہے جہاں صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے زرعی معیشت پر انحصار گندم فروخت نہ ہونے چاول کپاس اور گنے کی مناسب قیمت نہ ملنے پر یہاں کسان مزدور معاشی بدحالی کا شکار ہیں جو پنجاب حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں جس طرح وزیراعلی پنجاب مختلف اضلاع کا دورہ کر رہی ہیں ضلع لیہ کا دورہ کر کے وہ یہاں کے مسائل سے تفصیلی اگاہی حاصل کر سکتی ہیں مسائل کا ایک انبار ہے جسے اگر لکھا جائے تو کئی صفات لگ جائیں گے جن میں چیدہ چیدہ مسائل سامنے لائے جا رہے ہیں تاکہ پنجاب حکومت ان کو ایڈریس کرتے ہوئے بہتری لا سکتی ہے جس سے ضلع کی 24 لاکھ عوام کو بھی اس حکومت سے فائدہ پہنچے کیونکہ گزشتہ 50 سالوں سے اسی جماعت کی پنجاب پر حکمرانی رہی ہے اور ضلع لیہ پسماندہ ترین ضلع کی فہرست میں آتا ہے جو بھرپور توجہ کا منتظر ہے خاتون وزیراعلی اس کو ترجیح دیتے ہوئے یہاں مختلف شعبوں میں فنڈز مہیا کریں تاکہ ضلع کی عوام کی تقدیر بھی بدلی جا سکےامن و امان کی بد ترین صورتحال، انتظامی امور پر قابو پانے میں ناکامی ضلع بھر کے ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی،محکمہ صحت میں بہتری لانے،آپریشن تھیٹرز اور لیبارٹریز کو اپڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت۔ضلع بھر کے بنیادی مراکز صحت ہوں یا ٹی ایچ کیو ڈی ایچ کیو جس میں نہ ادویات ہیں نہ وقت پر ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف ملتے ہیں کوئی بھی آؤٹ ڈور یا ان ڈور سہولیات حاصل نہیں کر سکتا ماسوائے اس کے کہ وہ صحت کارڈ استعمال کرےریونیو میں کرپشن کے خاتمے،سڑکوں کی تعمیر،صاف پانی کی فراہمی،کوڑا کرکٹ اور سیوریج کے مسائل،تفریح گاہوں کی بحالی ضروری ہے۔پارکس اجڑے ہوئے ہیں کوئی پارک ماڈل نہیں ہے اور ریونیو میں جتنی بدحالی ہے تقسیم کے کیسز بھی سالہا سال پڑے رہتے ہیں پٹواری قانونگو اتنے منہ زور ہیں کہ وہ ونڈہ ڈالنے کے لیے لاکھوں روپے طلب کرتے ہیں جن کو کبھی نہیں پوچھا گیا چاہے روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہریوں میں شکایات کیوں نہ ہوتی رہیں غیر قانونی ریفلنگ سنٹرز،ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بننے والے اینٹوں کے بھٹے، کوئلے کی بھٹیاں اور فیکٹریاں سر عام چل رہی ہیں۔
غیر قانونی آئل ایجنسیوں،اتائی ڈاکٹروں،جعلی ،نوسربازوں،فراڈیوں،قابضین،ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی کی بھرمار ہے۔ضلع لیہ کالونی ایریا ہونے کی وجہ سے تحصیل چوبارہ کی زمینیں کئی کئی دفعہ فروخت ہو چکی ہیں اور سب سے زیادہ لیٹیگیشن اسی تحصیل میں ہے جس کی اج تک نہ تو کبھی تفتیش کی گئی نہ ہی کسی کو سزا ملی نہ کسی افسر کو پکڑا گیا اور نہ وہ بینیفیشری جو باہر سے ا کر جہاں کاروبار کرتے ہیں انہیں پکڑا گیا اس وجہ سے اج بھی قبضہ گروپ اور محکمے کی ملی بھگت سے زمین جعلی امثلا جات کے ذریعے الاٹ کروا رہے ہیں گلیوں،محلوں،مارکیٹوں،بازاروں میں تجاوزات بدستور قائم،صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات میں عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے۔تجاوزات کے خاتمے کے لیے فوٹو سیشن کی حد تک تو ضرور ہے لیکن لیہ کے تمام شہروں میں کاروبار دکانوں کے اندر کے بجائے سڑکوں پر ہو رہا ہے جن کی مبینہ بھتہ خوری کی جاتی ہے
ٹمبر مافیا دن رات محکمہ جنگلات کے افسران کی ملی بھگت کے ساتھ قیمتی درختوں کی کٹائی، چیرائی اور سپلائی میں مصروف ہے۔لیا جنگلات کا ڈویژن ہے لیکن یہاں نہ تو نیا جنگل لگایا جاتا ہے نہ پرانے جنگل کی حفاظت کی جاتی ہے بلکہ انہیں کٹوا کر زمین بھی قبضہ گروپوں کے حوالے اور جنگل کا پانی بھی بیچا جاتا ہے
ضلع بھر میں موٹر سائیکل،انورٹرز،موٹرز،سولر پلیٹوں،جانوروں سمیت دکانوں اور گھروں میں چوری چکاری کا سلسلہ نہ تھم سکا۔کاشتکاروں نے جب سے سولر پر اپنی کاشت کو منتقل کیا ہے سولر پلیٹ موٹریں چوری کی کوئی دن نہیں ہے جب واردات نہ ہو اور اس میں بھی ریکوری نہ ہونے کے برابر ہےڈاکو بے لگام،شہری قیمتی مال و متاع سے محروم ہونے لگے،اسلحے کی نمائش اور منشیات کی سپلائی پر بھی قابو نہ پایا جا سکا۔چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ منشیات فروش کھلے عام شہریوں کو گولیاں مار رہے ہیں پولیس بلا تحقیق و تفتیش کیے شہریوں کو اٹھا کر تھانے میں بند کر رہی ہےیونیورسٹی آف لیہ،ایم ایم روڈ کی تعمیر،لیہ تونسہ پل، گریٹر تھل کینال سمیت دیگر بڑے منصوبے کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔یونیورسٹی اف لیہ فنڈز کی وجہ سے ایم ایم روڈ پر روزانہ حادثات لی تونسہ پل کی رابطہ سرکار کے لیے فنڈز مہیا نہیں ہو سکے ساتھ سال سے تعمیر شدہ پل معلق ہو کر کھڑا ہوا ہے جو رابطہ سرکار تکمیل پر ہی یہ خواب پورا ہو سکتا ہے کہ ہم لیتوں کا پل سے گزر رہے ہیں جو لیا کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے اور معاشی ترقی کا باعث بنے گاچوک اعظم کو تحصیل بنانے،لیہ کو ڈویژن بنانے،شہریوں کو ان کی دہلیز تک سہولیات اور انصاف فراہم کرنے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔مقام سیاسی رہنماؤں کی توجہ دلانے کے باوجود بھی عرصہ دراز سے چوک اعظم کو تحصیل بنانے کا وعدہ پورا نہ ہو سکا اب ڈویژن بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے وزیر پنجاب ضلع لیہ کو ڈویژن بنا کر بھی ارد گرد کے اضلاع کے مسائل حل کر سکتی ہیں ڈویژن ہونے کی وجہ سے ان کے لیے سفری مشکلات میں کمی ائے گی انتظامی افسران کی تمام کارکردگی صرف بھاگ دوڑ، فوٹو سیشن اور سوشل میڈیا پر داد وصول کرنے تک ہی محدود ہے۔اب تمام انتظامی افسران کسی بھی کام کے لیے فوٹو سیشن یا وزیراعلی کا بینر لگا کر کام کرتے نظر اتے ہیں جو محض اپنی اپنی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے کے لیے تو ہے لیکن اگر لیا کے شہروں کو دیکھا جائے تو تجاوزات سے گزرنا محال ہے سڑکوں پہ روزانہ حادثات اور دکانیں اندر لگانے کے بجائے باہر لگی ہوئی ہیں جنہیں کوئی نہیں دیکھ رہا
اچھی کارکردگی کی رپورٹس زمینی حقائق کے منافی ہیں عوام ظلم،مہنگائی اور جرائم کی چکی میں پستی جا رہی ہے۔جرایم کی شرح گو معاشی بدحالی سے بڑی ہے لیکن ان پر قابو پانا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے جس میں وہ پورا نہیں اتر رہے جس سے ائے روز تھانوں میں مقدمات کی شرح بڑھ چکی ہے اور ریکوری نہ ہونے کے برابر ہے سزا جزا کا عمل مزید بہتر بنانے سے ہی شہریوں کو امن و امان کی یقینی فضا میسر ا سکتی ہے
اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،دکاندار اور گراں فروش من مانی کر رہے ہیں،کوئی پرسان حال نہیں۔ضلع میں تعینات ہونے والے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس فوٹو سیشن تک محدود ہیں اگر انہوں نے کہیں چالان بھی کیا ہے تو چھوٹے دکاندار ریڑھی والے عام گلی محلے کی دوکانیں ان کی زد میں ہیں کبھی انہوں نے بڑے دکانداروں کو یا سٹاک رکھنے والوں کو چیک نہیں کیا نہ کبھی ان پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں دودھ، دہی،مرچ، مصالحہ جات، گھی سمیت ہر کھانے پینے والی چیز میں ملاوٹ کا دھندہ آب و تاب کے ساتھ چل رہا ہے۔ضلع کی فوڈ اتھارٹی میں ضرورت سے زیادہ ملازمین تو بھرتی کر لیے گئے لیکن وہ پھر اسی مبینہ بتخوری کا شکار ہو چکے ہیں دو ماہ میں کوئی ایک ادھ کاروائی کے علاوہ کہیں بھی نہیں دیکھا جا رہا کہ شہریوں کو صحت کے اصولوں کے مطابق اشیا خرد نوش مل رہی ہیں یا نہیں ہوٹلز سموسے پکوڑے فاسٹ فوڈ کی دکانیں کبھی چیک نہیں کی گئی نہ سیمپل لیے گئے ہیں دودھ خالص ملتا ہی نہیں اور نہ انتظامی افسران ان کے ریٹ چیک کرتے ہیں شکایت یا احتجاج پر مقدمہ درج کر کے مہنیوں کے لئے جیل بھیج دیا جاتا ہے، صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے۔مقدمات کی ریکوری نہ ہونے کے برابر کھلی کچہریوں میں پیش ہونے والے معاملات کا فیڈ بیک نہیں لیا جاتا محض ویڈیو وائرل کر دی جاتی ہے چوری کے مقدمات والے سائلین تھانوں کا چکر لگا لگا کر مایوس ہو رہے ہیں دام کے بدلے کام، ڈیل کے بدلے ڈھیل کا دور دورہ ہے، عوام پر زبردستی امن و سکون کا راگ الاپنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے تھانوں میں تعینات کیے جانے والے افسران بھی وہی لگائے گئے ہیں جو پہلے سے ہی اچھی شہرت نہیں رکھتے۔شہریوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے بہتری کی امیدیں وابستہ کر لیں،حکومت پنجاب ان مسائل کے حل کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب ضلع لیہ کا دورہ کریں ورنہ اپنے وزراء کے ذریعے ان مسائل کو ایڈریس کیا جا سکتا ہے کیونکہ ضلع لیا کی عوام کے لیے جو بڑی مشکلات پیدا ہوئیں یہاں کے تمام نمائندے تحریک انصاف سے منتخب ہوئے تھے یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ فنڈز میسر نہ کیے جا رہے ہوں لیکن یہ ثانوی حیثیت رکھتی ہے بات وزیر اعلی پنجاب ایک زیرک خاتون ہے جن کی پارٹی 50 سالوں سے حکمران ہے اور پنجاب کے چپے چپے کے مسائل سے اگاہ ہیں ان بنیادی ترجیحی سہولیات کی فراہمی اور اداروں کی درستگی کے لیے وزیر پنجاب ان پر بھی غور کر سکتی ہیں